اسلام آباد(جی این اے)منفی رویے بزرگوں کو تنہائی کا شکارہی نہیں کرتے بلکہ مختلف امراض میں بھی مبتلا کردیتے ہیں،ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ہیلپ ایج انٹرنیشنل کے زیراہتمام ایک روزہ میڈیاورکشاپ میں ٹرینرزکا اظہارخیال۔
شہزادوخاصخیلی نے صحافیوں کو دوران لیکچربتایا کہ ہمارے ہاں بزرگوں کو کن کن چیلنجز کا سامنا ہے اوریہ کہ ہم اپنے بزرگوں کے حالات زندگی بدلنے میں کیا کرداراداکرسکتے ہیں۔
شہزادوکا کہنا تھا کہ دنیا کی 72.28آبادی بزرگوں پر مشتمل ہے اوریقیناً پاکستان بھی اس سے باہرنہیں ہے،پاکستان میں بھی ایک کروڑسے زائدافراد بزرگوں میں شمارہوتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں تو بزرگوں کیلئے بے پناہ سہولیات ہیں،مگرہمارے ہاں حالات اس سے برعکس ہیں،ہرملک میں بزرگوں کی اوسط عمر الگ الگ ہے ہمارے ہاں بزرگوں کی اوسط عمر65.1فیصد ہے،یعنی ساٹھ سال کے فرد کو سینئرسیٹیزن کہا جاتا ہےاب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں کو انکی عمرکے مطابق سہولیات دی جارہی ہیں،یقیناً اس حوالے سے اکثریتی بزرگ تعصب کا شکارہیں۔زیادہ ترانہیں وہی خوراک ہی دی جاتی ہے جو گھرکے دیگرجوان لوگ کھاتے ہیں،ان کیلئے الگ سے کھانا نہیں بنایا جاتا،اسی طرح اگر گھر چھوٹا ہے تو بچے کمروں میں جبکہ جنکی محنت سے گھربنایا گیا ہوتا ہے انہیں عام طورپر برآمدے میں جگہ دی جاتی ہے،کئی بارتو ہمیں ایسی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ اولاد نے ماں باپ کو قتل کردیا یا انہیں گھرسے ہی نکال دیا۔غرض قدم قدم پر بزرگوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اولاد کی خوشیوں کیلئے قربانی کے جذبے کا اظہاربھی بزرگوں کو ہی کرنا پڑتا ہے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ آج اگرچہ ہمارے ملک کی زیادہ آبادی نوجوانوں پرمشتمل ہے مگر آگے چل کریہی نوجوان جب سینئرسیٹیزن ہونگے تو بزرگوں کی یہ بہت بڑی تعدادہوگی،اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بزرگ انسانی حقوق کے دائرہ کارمیں نہیں آتے جو انہیں ہرطرح سے نظراندازکردیا جاتا ہے؟حالانکہ ہم انکی زندگی کے وسیع تجربات سے مستفید ہوسکتے ہیں،اگر ہم انہیں اہمیت دیں،انکے رہن سہن اورغذائی ضروریات کا خیال رکھیں تو پیسنٹھ سال کی اوسط عمر میں کئی سال تک اضافہ ہوسکتا ہے۔اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری عمریں لمبی ہوں تو نہ صرف ہمیں اپنے منفی رویوں کوترک کرنا ہوگا بلکہ حفظان صحت کے اصولوں کو اپنا کرہم باآسانی ایک سوبیس سے ڈیڈھ سوسال تک زندہ رہ سکتے ہیں،صرف ہمیں اپنی کھانے پینے کی عادات کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
فیصل دایوجو ہیلپ ایج کے کمیونیکیشن آفیسرہیں نے ورکشاپ میں شریک صحافیوں کو نہ صرف اپنے بزرگوں کے حوالے سے اپنی سوچ اوراحساسات کو بدلنے پرزوردیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ ہم بزرگوں کے تجربات سے بھی کیسے فائدہ اٹھاسکتے ہیں،انہوں نے ان پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی جو ہمارے معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے میں معاون ثابت ہوسکتےہیں،تقریب کے آخر میں شرکا کو شیلڈزاورسرٹیفکیٹس بھی دئیے گئے۔