دین پناہ است حسینؓ

0

شاہ است حسینؓ، بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ، دین پناہ است حسینؓ
سر داد، نہ داد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ
اسلامی سال کا آغاز و اختتام دو عظیم قربانیوں کی یاد سے ہوتا ہے۔ دونوں کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے وابستہ ہے۔ ایک کا تعلق نبیوں سے اور دوسری کا نبیوں کی اولادسے ہے۔ پہلی تاقیامت ہر صاحبِ ایمان کے لئے سنت ٹھہری۔ دوسری تا روز ِ محشر نظیر ِ اطاعتِ مشیتِ الہیٰ بن گئی۔ دونوں صبر و رضا کی انتہاء کا امتحان ہیں۔ وہ صبر جو کسی عام انسان کی ہمت و استطاعت کے بس میں ہی نہیں۔۔جو صرف اللہ کے نبیوں اور ا ن کی اتباع کرنے والی اولاد کے ہی شایانِ شان ہے۔
ماہِ محرم الحرام نواسہِ رسول اللہﷺ، جگر گوشہ علی و بتول، برادرِحضرت حسن المجتبی ؓ،رکنِ اصحابِ کساءؑ،سید الشہداءؑ، سردارِجنت، ریحانۃ النّبیؐ، پیکر ِ صبر و رضا، مثلِ عشق و وفا، سفیر ِ حق، شہنشاہِ کربلا سیدنا حضرت حسین ابن علی ؓ سے منسوب ہے۔ اس ماہ کے اوئل ایام سے یومِ عاشورہ کی شام ڈھلنے تک نبیِ آخر الزمان رحمت اللعالمین ﷺ کے خانوادے پہ، بظاہر کلمہ گو خود کو مسلمان کہلوانے والوں نے ظلم و ستم کی ایسی قیامت بپا کی۔ کہ جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
امامِ عالی مقام حضرت حسین ابن علی ؓ کی ولادت باسعادت روایات کے مطابق 3 شعبان المعظم 4ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؑ چمنِ زہراؓو مولا علیؓ کے دوسرے پھول ہیں۔ آقا سرورِ کائنات ﷺ نے آپؓکی ولادت باسعادت پہ تشریف لائے، خوشی کا اظہار فرمایا اور داھنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنیؐ زبان مبارک منہ میں دی۔اس طرح رسول اللہﷺ کا مقدس لعاب دھن حسین ؓ کی غذا بنا۔ رسول اللہﷺ بحکمِ ربی نام حسینؓ رکھا۔ اور ساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔آپ ؓ کی کنیت ابا عبداللہ اور لقب سید الشہداءؓ ٹھہرا۔ روایات سے ثابت ہے کہ رسولِ خداﷺ نے سیدنا حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کی خبر آپؑ کے بچپن میں ہی سنا دی تھی اور غم کا اظہار فرمایا۔
رسول اللہﷺ دونوں شہزادوں حسنین کریمین ؓسے بے انتہاء محبت فرماتے۔اور ان سے محبت رکھنے کا حکم بھی فرماتے۔ رسول اللہﷺ کی جناب حسنین کریمینؓ سے محبت کی بہت سی روایات ہیں۔
ارشاد رسول اللہﷺ ہے۔
ترجمہ؛ ”حسنؓ اور حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں“۔( جامع الترمزی)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمین ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا:”اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔“
ترمذی، الجامع الصحیح، 5: 661، ابواب المناقب، رقم: 3782
یہ حسنین کریمینؓ سے محبتِ آقاِ دو جہاں ﷺ ہے۔ کہ کہیں رسولِ خدا ﷺ سجدہ طویل فرماتے ہیں۔ کہیں اپنے کندھوں مبارک پہ سوار فرماتے ہیں۔ اور کہیں ان کے لیے خطبہ روک کے منبر سے تشریف لاتے ہیں۔اور آغوشِ نبوتﷺ میں لے لیتے ہیں۔
سید الشہداء ؓ کے بارے میں فرمان رسول اللہﷺ ہے۔
ترجمہ:
”حسین ؓمجھؐ سے ہے۔ اور میں ؐ حسینؓ سے ہوں، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے، حسینؓ میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔“(سنن الترمذی، ابواب المناقب، (5/ 658 و659) برقم (3775)، ط/ شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی مصر)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے حسنؓ اور حسین ؓسے بغض رکھا اس نے مجھؐ ہی سے بغض رکھا۔“
ابن ماجہ، السنن، باب فی فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ، 1: 51، رقم: 143
امامِ عالی مقام حضرت حسین ؓ کی حیاتِ طیبہ پہ نظر ڈالیں۔ تو آپؓ نے چھ سال چند ماہ کا عرصہ اپنے جد امجد رسول اللہﷺ کے زیر سایہ گزارا اور 29 سال و گیارہ ماہ اپنے پدر بزرگوار امیر المؤمنین حضرت علی ؓ اور دس سال کا عرصہ اپنے برادر بزرگوار حضرت امام حسن المجتبیؓ کے ساتھ گزارا۔ آپؑ اصحابِ کساء میں شامل ہیں۔ اور اپنے نانا جان رسول اللہﷺ کے ساتھ مباہلہ میں بھی حاضر تھے۔ سنہ 36 ہجری میں جنگ جمل، سنہ 37 ہجری میں جنگ صفین اور سنہ 38 ہجری میں جنگ نہروان میں شرکت فرمائی۔ اور حق کا ساتھ دیا۔
سیّدنا مولا حسینؓ حَلِیمُ الطَّبْع تھے۔ غلاموں سے درگز فرماتے۔ ا ور ان کو آزاد فرماتے۔ سیّدنا حسینؓ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار ہوکر جارہے تھے، راستے میں غرباء کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے کہا فرزند رسولﷺ ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے۔ آپؑ گھوڑے سے اُترے اور غرباء کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور اس موقع پر فرمایا ”اللہ تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ سیّدنا حسینؑ نے ان غرباء کو اپنے کھانے کی دعوت دی۔ (الجویرۃ)
امامِ شہداء سیدنا امام حسینؓ کی عظیم شخصیت کی مبارک خصوصیات میں سے ایک روشن خوبی ظلم کو قبول نہ کرنا تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ نواسہِ رسول اللہﷺ نے یزید(لعین) کے ظلم و ناانصافی کو تسلیم کرنے سے صاف انکار فرمایا اور علمِ حق بلند فرمایا۔ آپؓ نے راہِ خدا میں اپنی جان، اپنی اولاد اور اپنا گھر بار لٹا کے دین حق کی آبیاری فرمائی۔
واقعہِ کربلا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا فلسفہ،ایک درس اور ایک عظیم مقصد کارفرما ہے۔ اور اس میں شخصیت و کردارِ سیدنا
امام حسینؓایک مکمل درس گاہ نظر آتی ہے۔ واقعہِ کربلا کو سمجھنے کے لیئے فلسفہِ حضرت امام حسینؓ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مستند تاریخی روایات کے مطابق رجب 60ھ/ 680 ء میں یزید نے اسلامی اقدار اور دین کے احکامات کے منافی ظلم، جبر و استبداد پر مبنی اپنی حکومت کا اعلان کیا اور بالجبر عام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔ مدینہ میں بیعت کے لئے سیدنا حسین ابن علی ؓ کو مجبور کیااور اس سلسلہ میں امام عالی مقامؓپہ سختی کرنے کا حکم جاری کیا۔ سیدنا حسین ؓسے بیعت لینا یزید کی مجبوری تھی۔ کیونکہ امت کی نگاہوں کا مرکز نواسہِ رسول اللہﷺ تھے۔ ظلم و بربریت کے خوف سے اہلِ مدینہ تو خاموش ہو سکتے تھے۔ مگر نواسہ ِ رسول اللہﷺ، ابنِ فاتؑحِ خیبر، سیدناحضرت حسین ابنِ علیؓ کہ جوپروان ہی حق گوئی و حق پرستی کے سائے میں چڑھے ہوں، جن کے سامنے اپنے نانا جان ﷺ کا واضح حکم موجود ہو،
ترجمہ:
”سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہء حق کہنا ہے۔“
جن پر اُس وقت دین خدا کو بچانے کی ذمہ داری عائد ہو رہی ہو، جن پر اُمت کی نگائیں ٹھہری ہوئی ہوں۔خاموش رہ کر ایک بے دین شرابی کی بیعت کیسے فرما سکتے تھے۔
سوسالار ِ شہداء ؓنے اپنے نانا جان رسول اللہﷺ کے حکم پہ عمل فرماتے ہوئے علمِ حق بلند فرمایا اور28 رجب 60ھ کو مدینہ سے مکہ اور پھر 8 ذوالحج 60ھ کو حالات کے تیور دیکھتے ہوئے حج کو عمرے میں تبدیل کرتے ہوئے مکہ سے کربلا کی طرف سفر فرمایا۔خانوادہِ رسول اللہﷺ سمیت 72 نفوس اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس مقصدِ عظیم کے لئے قیام فرمایا۔
اللہ رب العزت قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ”اے ایمان والو! صبر اور نمازسے مدد مانگو، بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔“
واقعہِ کربلا میں یوم عاشورہ کی اذانِ علی اکبر بن حسینؓ بتاتی ہے۔ کہ اہل بیت اطہارؓ اور قرآن ساتھ ساتھ تھے۔ چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغرؓبن حسیننؓ سے لے کر 85سالہ ضیعف صحابیِ رسولؐ حضرت حبیب ابنِ مظاہر اسدیؓ تک،ہر ایک کی قربانی بے مثال و لازوال نظر آتی ہے۔ اگر اہلِ بیت اطہارؓ کی بیبیوں ؑ کا ذکر ہو۔ تو سیدہ زینبؓ بنت حضرت علیؓ سے لے معصوم بچی سکینہ بنت حسینؓ تک ہر ایک صبر و ہمت کا پیکر ہیں۔
10 محرم 61ھ/ 680ء یوم عاشورہ،وہ خون ریز و قیامت خیز دن جو اہل بیت رسول اللہﷺ پہ گزر گیا۔ وہی اہل بیت اطہارؓکہ جن پہ درود و سلام پڑھے بنا ء نماز مکمل نہیں ہوتی۔ ان کو پیاسا شہید کر دیا گیا۔ خُونِ عترتِ رحمۃ للعالمینﷺ تپتے ریگزار میں بہایا گیا۔۔ جن کو رسول اللہﷺ چومتے تھے۔ انہی سیدناحضرت حسین ابن علی ؓکے گلے پہ خنجر چلایا گیا۔ رسول اللہﷺ کے کندھوں کے سوارکے لاشے پہ گھوڑے دوڑائے گئے۔۔باپردہ بییبوں پہ شام ِغریباں طاری کر دی گئی۔ ان کے خیمے جلائے گئے۔ اسیر بنایا گیا۔
میری ذات پہ حاوی ہے کربلا کا ستم
مری آنکھ سے اشک یونہی کہاں بہتے ہیں
شہادتِ امامِ شہداءؓ پہ غم کرنا سنت رسول اللہﷺ ہے۔ جو واقعہ کربلا سے پہلے بھی ثابت ہے۔ اور بعد میں بھی۔ واقعہء کربلا انسانی تاریخ وہ خونی باب ہے کہ جس پہ تاقیامت نسل ء انسانی آنسو بہاتی رہے گی۔
سچ اور حق کو ہر ایک پہچاننے کے قابل نہیں ہوتا۔ حق کا ساتھ دینے والے ہمیشہ تعداد میں کم ہوتے ہیں۔ اس کی گواہ کربلا کی پاک سرزمین ہے۔ سیدناحضرت امام حسینؓنے رضائے خدا کی خاطر بظاہر تعداد میں کم ہوتے ہوئے بھی”امر بالمعروف اور نہی المنکر“کے لئے صبر و شجاعت کی جو لازوال قربانی دی۔ اس کی نظیر پوری نوحِ انسانی میں نہیں ملتی۔
لاکھوں کروڑوں سلام ہو سید الشہداء حضرت امام حسین ؓ اور آپؓ کے جانثارساتھیوں پر۔
کہہ رہے ہیں عرشی فرشی تُجھ کوبصد احترام
حسینؓ تیرے ولولے کو، تیری جرُات کو سلام

Leave A Reply

Your email address will not be published.