عورت پراتنا ظلم؟

0

Email.duaali.peot@gmail.com

اچھے بْرے مرد ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اگر اس پر حیوانیت طاری ہو جائے تو وہ کس حد تک گرسکتا ہے،یہ سن کر روح کانپ اٹھتی ہے کہ بیٹا، بھائی، شوہر، باپ اور دوسرے معتبر رشتوں کا حامل مرد کسی دوسرے کی عزت کو کس بے دردی سے پامال کرتا ہے، اس درندگی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، موجودہ ترقی یافتہ دور میں جس طریقے سے عورتوں کی تذلیل کی جارہی ہے اور اس کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے یہ امر ہر معاشرے، ہر طبقے اور ہر مکتبہ فکر کے غیرت مندوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک آدمی اتنا کیسے گر سکتا ہے۔۔؟ کہ وہ کسی معصوم لڑکی کی عزت کو بے دردی سے پامال کردے۔ مرد اگر انسان ہو تو لائقِ تعظیم ہے، لیکن جب یہی مرد شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر ”وحشی“ بنتا ہے تو ایسے بد کردار کو اپنے پرائے کی تمیز بھی نہیں رہتی اور پھر اس کے اپنے بھی اس بد کردار نفسیاتی مریض کی وحشت سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ہمارے معاشرے میں جہاں اگر کوئی بد طینت مرد حیوانوں جیسا بن چکا ہے تو وہاں اچھے اخلاق و کردار والے مردوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ایک طرف اگر مردوں نے اپنا اعتبار کھو دیا ہے تو دوسری طرف ایسے مرد بھی ہیں جو اعتماد کی عمدہ مثال ہیں۔اور پیکرِ وفا،حلالی خون اور اعلیٰ حسب و نسب کی ایک عمدہ تصویر ہیں۔آئے روز ہونے والے واقعات نے مجھے کیا، ہر فرد کو پریشان کر رکھا ہے۔میرے اندر ایک ایسا کرودھ اور نفرت مردوں کے لیے پروان چڑھ رہی ہے کہ اللہ کی پناہ۔

اب کیا میں یہ لکھوں کہ مرد وحشی ہے؟؟ لیکن دوسری جانب مرد پیغمبرِ خدا بھی تو ہے۔

کیا میں یہ لکھوں کہ مرد حیوان ہے؟ لیکن مرد ادریس، نوح،صالح، ابراہیم، زکریا یحییٰ و اسحاق بھی تو ہیں۔

کیا میں یہ لکھوں کہ مرد سے بڑھ کر کوئی بھی ناقابل اعتبار ذات نہیں، لیکن مرد اسماعیلؑ، یوسف ؑ،ایوب ؑ،یونسؑ،موسیٰ ؑ،یوشع،الیاس، عیسیٰؑ وہارون بھی تو ہیں۔

کیا میں یہ لکھوں کہ مرد شیطان سے بھی بدتر ہے لیکن مرد شیرِ خدا اور اولیائے اللہ بھی تو ہیں۔

میں ایسا کیا لکھوں کہ اپنے اندر کا کرودھ اور نفرت مردوں کے لیے صفحہ ء قرطاس پر بکھیر سکوں،مرد باپ اور بھائی بھی تو ہیں۔

لیکن جب اس مرد پر حیوانیت طاری ہوجاتی ہے تو وہ مرد کیا انسان بھی نہیں رہتا بلکہ وحشی درندہ بن جاتا ہے اور میں ایسے وحشی درندوں پر کیا لکھوں؟ کب سے یہی سوچ رہی ہوں۔۔۔!! مرد تو باپ، بھائی، شوہر جیسے پاکیزہ پیارے رشتوں کا ’پالن ہار‘ہے، وہ اپنے سے جڑے ہر رشتے کا محافظ ہے۔لیکن کبھی کبھی کسی مرد پر جب حیوانیت طاری ہوجاتی ہے تو وہ مقدس رشتوں کی تقدیس کو بھول جاتا ہے۔

گذشتہ دنوں ہمسایہ ملک بھارت میں ایک مومیتا نامی لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ درندگی کا جو واقعہ پیش آیا اس نے معاشرے کے ہرفرد کو رنجیدہ کر دیا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ یہ واقعہ کسی نفسانی خواہشات کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا، اس کا تعلق ”نفسانی خواہش ” سے نہیں بلکہ یہ سب ایک کرپٹ ”مافیا“ کے طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا ہے۔نفسانی خواہشات کے باعث خواتین اور بچیوں کا ریپ بھی پاکستان اور بھارت میں معمول بن چکا ہے، لیکن بھارت میں ایک ”مسیحا“ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا۔ اس نے سبھی کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس خطے میں موجود کرپٹ سسٹم اس قدر زورآور ہے کہ وہ اپنے کرتوتوں کے بے نقاب ہونے کے ڈر سے اپنے مخالفین کی جان لینے سے بھی نہیں چونکتا۔ایک مسیحا کے ساتھ غیر انسانی ظلم سے زمین و آسمان لرز گئے، اس کی جان تو چلی گئی لیکن اس ظلم و بربریت کے واقعے نے سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔خطے میں ایسے انسانیت سوز واقعات روز مرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ جب کہ ظالموں کو روکنے والا کوئی نہیں، مظلوم انصاف کے حصول کے انتظار میں اگلے جہاں چلے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارا ایک مزاج بن چکا ہے کہ ہم بغیر تصدیق کے کسی بھی واقعے کے حوالے سے نت نئی کہانیاں جوڑ لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔فرضی کہانیاں اور قیاس آرائیاں کسی طور پر بھی اچھی بات نہیں، ہمیں اس سے گریز کرنا چاہئے،کاش! معاشرے میں ہونے والے ظلم اور ناانصافیوں کی روک تھام کے لئے بھارت اور پاکستان کی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر دھیان دیں، اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو آنے والا دور قوم کے لئے مزید مشکلات بڑھا دے گا،ناانصافی والے معاشرے میں تباہی و بربادی انسانوں کا مقدر ہوا کرتی ہے،ایسا نہ ہو کہ انصاف کا بول بالا کرنے کیلئے کوئی ایسا انقلاب آئے کہ ظالموں کو کہیں پناہ نہ ملے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.