وزیراعظم شہباز شریف نے کوئٹہ میں کسان پیکیج کے دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تلخ فیصلے نہ کیے تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا،اگر 3 سال بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہو گا۔اپنے دورہ کوئٹہ کے دوران انہوں نے کسانوں کو کچھ خوشخبریاں بھی سنائیں تاہم ان کا زیادہ زور آئی ایم ایف کا رونا رونے پر تھا۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جو بھی حکومت ملک و ملت پر مسلط کی جاتی ہے،وہ عوام کی فلاح وبہبود کے حوالے سے ریاست کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے ہمیشہ عوام پر مالی بوجھ بڑھا دیتی ہے اور سبھی لیڈران کرام کا ایک وطیرہ ہے کہ ”اس جبرو زیادتی کی ذمہ داری جانے والی (پیش رو) حکومت پر ڈال دیتے ہیں،ان کا موقف یہی ہوتا ہے کہ ہم تو عوام کی زندگی میں اُجالا لانے کیلئے آئے تھے۔لیکن کیا کریں ہمیں ”لولا لنگڑا پاکستان“ دیا گیا ہے۔سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکمرانوں کو ہم پر مسلط کرنے والے ”خاموش تماشائی“بنے تماشا دیکھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جمہوریت کے لبادے میں ”کرسی“ لینے والے عوام کی بجائے اپنی اولادوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں لگ جاتے ہیں، ساتھ ہی مہنگائی کا ایسا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں کہ غریب کی چیخیں نکل جاتی ہے۔موجودہ حکومت میں شامل سبھی قائدین سابقہ عمران خان حکومت کی طرف سے پیٹرول، بجلی، گیس و دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھانے پر جس طرح خان صاحب کی تذلیل کرتے تھے اور انہیں ظالم ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔آج وہی لوگ اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہر وہ اقدام اٹھا رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہر آنے والے دن میں اندھیرے بڑھ رہے ہیں۔خوددار قومیں اپنے وسائل سے باعزت زندگی گذارتی ہیں جبکہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جسے فرنگی سامراج نے”آزادی“ کے نام پر کچھ خطہ زمین ”گفٹ“ کیا تھا لیکن اس فرنگی سامراج نے خطے کے مسلمانوں کو ”معاشی غلامی“ سے نکلنے نہیں دیا۔غور طلب بات یہ ہے کہ برصغیر پر 2000سال مسلمانوں کی حکومت رہی۔اس لئے اس خطہ پر مسلم اُمہ کا حق تھا،لیکن فرنگیوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت سب سے زیادہ رقبہ ہنددؤں کے حوالے کیا،جبکہ اس زمین پر ہنددؤں کا کوئی حق نہ تھا۔پاکستان آزاد ریاست بنا لیکن ہم پر مسلط کی جانے والی فرنگیوں کی لے پالک حکومتوں نے انہی کے مفادات کے طابع کام کیااور فرنگیوں نے بھی حکمرانوں کی ”مفاداتی سیاست“کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان جسے لوگ ”ڈکٹیٹر“ کے نام سے یاد کرتے ہیں،کا دور ِحکومت تعمیر و ترقی کا وہ عشرہ تھا کہ جس میں تربیلااورمنگلا جیسے بڑے ڈیم بنے،اور اس قدر انڈسٹری لگی کہ ملکی معیشت صحیح سمت پر چل پڑی۔یہ الگ بات ہے کہ بیرونی قرضوں کی ابتدا ء فیلڈ مارشل کے دور میں ہی ہو گئی تھی۔لیکن بعد میں آنے والی ہر حکومت نے خود انحصاری کے حوالے سے پالیسیاں بنانے پر دھیان نہیں دیا۔آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، چائنا، امریکہ،سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے قرضے اور خیرات لینے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جس کی بدولت عوام پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا۔موجودہ حالات میں بھی ہر پاکستانی آئی ایم ایف کاتقریباً1122ڈالریعنی کہ2 لاکھ75 ہزارروپے کامقروض ہے۔گویا 26کروڑ عوام پر کوئی 391بلین ڈالرکا قرضہ ہے۔اسے پاکستانی کرنسی میں تبدیل کریں تو یہ رقم کھربوں میں پہنچ جاتی ہے۔حتیٰ کہ کیلکولیٹر بھی اس قرضے کا حساب لگانے سے قاصر ہیں۔
بجلی، گیس سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اس کے باوجود حکمران بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ قوم کو یہی باور کرانے میں لگے رہتے ہیں کہ اگر ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانیں تو ہم زندہ نہیں رہ پائیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو دھرتی قیمتی معدنیات اور خزانوں سے مالا مال ہو،جس کی زمینیں سونا اگلتی ہوں۔اس ملک کے حاکم ملکی وسائل کو استعمال کرکے پاکستان کو ایک باوقار ملک بنانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔پیٹرول اور گیس کے ذخائر بھی اس دھرتی میں موجود ہے۔اس کے باوجود ہم پیٹرول کیلئے سعودی عرب و دیگر ممالک کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ اگر ہمیں ”اللہ کے نام“ پر پیٹرول دے دیں تو ہم قوم کو سستا پیٹرول دیں۔تحریک انصاف بھی بڑے بڑے دعوے کرتی رہی لیکن جب حکومت میں آئی یو پھر وہ بیانیہ بھول گئی اور قرضے بھی لیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے آئی ایم ایف سے چھٹکارا کس طرح پایا جا سکتا ہے۔اس کا سادہ سا جواب ہے کہ باربار حکومت کے ذمہ دار قائدین سمیت سبھی بااثرطبقات نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔پاکستان سے لوٹی گئی کھربوں روپے کی دولت سے ان لوگوں نے بیرون ملک دوبئی وغیرہ میں کھربوں روپے کی جائیدادیں بنارکھی ہیں۔میاں نواز شریف، میاں شباز شریف، آصف علی زرداری، جہانگیر ترین، علیم خان، اسحاق ڈار سمیت سبھی لیڈروں اور ”خیرخواہانانِ ِ ملت“کے پاس اس وقت کھربوں روپے(ڈالر) کی دولت موجود ہے۔یہ سبھی اگر چاہیں کہ پاکستان حقیق معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بن جائے تو یہ لوگ صرف ایک بار خود قربانی دیں۔قوم کے لئے۔۔ ملک کیلئے۔۔ اگر یہ اس طرح کی قربانی دیں تو اس کے بعد بدلے میں یہ سبھی اس سے زیادہ دولت دوبارہ اکٹھی بھی کر سکتے ہیں کیونکہ غریب کے پاس تو کچھ بھی نہیں،ملک کے سارے وسائل ہی ان کے تصرف میں ہیں۔ غریب تو ساری زندگی حکومت کی زیادتیاں سہتا اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے اور اس غریب کے مرنے کے بعد یہی عذاب اس کی اولادیں سہتی ہیں۔ہر حکومت یہ کہہ کر غریبوں پر ظلم ڈھاتی ہے کہ ہم مجبور ہیں آئی ایم ایف کا ”ڈنڈا“ قربانی مانگتا ہے،ہمیں تلخ فیصلوں پر مجبور کرتا ہے۔یہاں بھی یہی سوال توجہ طلب ہے کہ آئی ایم ایف نے ان لیڈروں کو کبھی یہ نہیں کہا کہ”اللہ کے بندو! تم لوگ اپنی عیاشیاں کم کروں۔ہونا تو یہی چاہئے کہ لیکن یہاں ہمیشہ ہی الٹی گنگا بہتی ہے کیونکہ یہ بااثر مافیا خود آئی ایم ٰایف کا سہولت کار ہے۔یہ فرنگی برانڈ قیادت اور ان کے حواری آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بدلتے ”سہولت کاری“کی مد میں 20سے 25فیصد تک اپنا حق وصول کرتے ہیں۔انسان کی اصلی منزل ”قبر“ہے کہ جس کا سائز تقریبا!اڑھائی گز ہے۔اس سے زیادہ کسی کو کچھ نہیں ملنا۔ہمارے قائدین ذرا سوچیں کہ یہ ہیرا پھیری اور ظلم و جبر کے ذریعے لوٹی گئی دولت تو ان کے ساتھ نہیں جانی، بلکہ یہ سبھی دولت، محل اور چوبارے ایک فتنے کی صورت دنیا میں ہی رہ جائیں گے۔جس پر ورثاء میں جنگ و جدل ہوگی۔حقیقت تو یہ ہے کہ رعایا کے ساتھ روا رکھے گئے ایک ایک ظلم کا حساب روزِ محشر ان لوگوں نے دینا ہے۔وہاں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوگا۔اس مافیا سے تعلق رکھنے والا ایک ایک فرد ماہانہ 20سے50لاکھ تک سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتا ہے، اس سے دو تین گنا دیگر سہولیات پر خرچ کرتا ہے۔ناجائز کمائی اس کے علاوہ ہے۔اتنی مراعات اور عیاشیوں کے باوجود یہ لوگ مطمئن نہیں۔ایسے میں 15سے 20ہزار روپے کمانے والااس پاک وطن میں کیسے زندگی گذار رہا ہے۔۔یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔بس یہ مفاد پرست، جان بوجھ کر سفید پوشوں پر اس ظلم کے خلاف خاموش ہیں۔آخرت کی فکر انہیں نہیں،یہ دنیا میں خود بھی اور اپنی اولادوں کیلئے آسائشوں کے طلب گار ہیں۔رعایا کے حقوق کی ادائیگی ریاست کی ذمہ داری ہے۔اور سلام نے یہ سبھی اصول و ضوابط بیان کر رکھے ہیں،یہی اصول بعض غیر مسلم ممالک میں رائج ہے اس کے برعکس پاکستان کہنے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہاں اسلام ہے اور نہ جمہوریت۔دیکھا جائے تو یہاں ایک ”ڈنڈا“ پورے سسٹم کو یرغمال بنا کر بیٹھا ہے اورکوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں۔ملک کے معاشی حالات جس سمت چل رہے ہیں،ان میں بہتری کی کوئی صورت باقی نہیں نظر آتی۔اس سے پہلے کہ ملک میں ”غدر“(خانہ جنگی)مچے حکمرانوں کو بیدار ہو جانا چاہئے۔ملک و ملت کی بہتری کیلئے باہمی مشاورت سے اس کا کوئی مستقل حل نکالنا چاہئےتاکہ آئندہ کسی بھی مرحلے پر ہمیں کشکول لے کر آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔اور نہ عوام کو اپنے حقوق کیلئے علم بغاوت بلند کرنے کی نوبت آئے۔