شاہ خالد شاہ جی
دنیا میں ہرمعاشرے کی اپنی اپنی اقدار ہوتی ہیں جو اس کو دوسرے معاشروں سے ممتازکرتی ہیں ۔ اوریہی اقدار دوسرے معاشروں میں ان کی پہچان بن جاتی ہیں۔ دنیا نے آج بہت ترقی کرتے ہوئے ایک گائوں کی شکل اختیارکرلی ہے تو دوسری طرف معاشرتی قدریں کمزور ہوگئی ہیں۔اب ان اقدار کی صرف ہمارے قبائلی معاشروں میں کچھ نہ کچھ جھلک ملتی ہے۔
ضلع باجوڑصوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع کا ایک ضلع ہے جوایک قبائلی معاشرہ ہے اس میں بھی کچھ ثقافتی روایات اب بھی باقی ہیں۔ان میں ایک روایت "اشر” نام کی بھی ہے۔ "اشر” کا مطلب ہے اکٹھے کام کرنا یعنی بہت سے لوگوں کا مشترکہ طورپر ایک کام کو سرانجام دینا "اشر” کہلاتا ہے۔
” آشر” میں شرکت کرنے والے بلامعاوضہ حصہ لیتے ہیں۔
ہمارےعلاقے میں جب کوئی بندہ اپنا کام اکیلے نہیں کرسکتا اوراس کو مدد کی ضرورت ہوتی ہےتواس کے ہاں گاؤں والے اوررشتہ دار جمع ہوکر مشترکہ طور پراسکا کام سرانجام دیتے ہیں۔ اس کام کے عوض وہ لوگ اس شخص سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے بلکہ کام کرنے پرخوش ہوتے ہیں کہ اس نے اپنے گاوں والے یا رشتہ دارکے ساتھ کام میں اسکا ہاتھ بٹایا اوراسکی مشکل حل کی۔
"آشر” کے چند اصول
دنیا میں جسطرح ہرکام کے کچھ اصول ہوتے ہیں ویسے ہی "اشر” کے بھی چنداصول ہیں اگرچہ یہ اصول کوئی طے شدہ یا حتمی نہیں ہیں مگرانکی پابندی”اشر” میں حصہ لینے والے لوگوں پرلازم ہے۔
پہلا اصول اس میں یہ ہے کہ "اشر”میں مدد کاطالب ایک دو یا تین دن پہلے لوگوں کوآگاہ کردیتا ہے کہ فلاں دن اس کا کام ہے اس کے لئے اپ "آشر” کے لئے آجائیں۔ تو وہ لوگ اسی دن مقررہ وقت پر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ اشرمیں اکثر زیادہ تعداد میں لوگ حصہ لیتے ہیں تاکہ مطلوبہ کام ایک دن میں ختم کیا جائے اگر ایک دن میں نہیں تو دوسرے دن بھی لوگ اس کے لئے آتے ہیں یا کچھ دنوں کے وقفے کے بعد بھی لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کام کے ختم ہونے تک وہ اس میں حصہ لیتے ہیں البتہ اس دوران لوگوں کی تعداد وقت کے ساتھ کم یا زیادہ بھی ہوجاتی ہے۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ اس روایت کا حصہ بننے والوں کیلئے کھانے پینے کا بندوبست کرنامیزبان کی ذمداری ہوتی ہے لیکن ” اشر” میں حصہ لینے والے لوگ بھی اپنے گھروں سے بخوشی اگر کھانا وغیرہ لاتے ہیں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ میزبان "اشر” میں دیسی گھی،دہی اور لسی کے ساتھ ساتھ روایتی کھانوں کا اہتمام کرتاہے اوریہی "اشر” میں شریک لوگوں کی پسندید خوراک اورمانگ بھی ہوتی ہے۔
تیسرا اصول "اشر”میں ہرعمر کے لوگ حصہ لیتے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی روایت ہے جس میں ہرکوئی اپنی مرضی سے حصہ لیتا ہے۔ "اشر” کی روایت اپنے اوردیگرقریبی دہیات میں بھی قائم ہے،دعوت کی صورت میں دوسرے گاؤں میں بھی لوگ "اشر” کے لئے جاتے ہیں۔”اشر” کی روایت پشتون معاشرے میں صدیوں سے رائج ہے۔
"اشر” کے شرکاء کے بعض اوقات دوگروپ بنائے جاتے ہیں جوآپس میں کام تقسیم کر کے ایک مقابلے کا اہتمام کرتے ہیں اورجو گروپ اپنا کام پہلے ختم کرتا ہے تواس کو داد دی جاتی ہے اوراس کے لئے کھانے میں خاص تواضع بھی کی جاتی ہے،لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
"آشر” کا اہتمام کن مواقعوں پر کیا جاتا ہے؟
"اشر” کا اہتمام کئی مواقعوں پرکیا جاتا ہے مثلاًمکانات بنانا، گاؤں کے لئے مشترکہ راستے بنانا، پانی کا بندوبست کرانا لیکن کچھ مواقعوں پراس کا خاص بندوبست کیا جاتا ہے جس میں فصلوں کی بویائی اوراس کی کٹائی شامل ہے۔ باجوڑ میں چاول کی فصل کی بویائی اورکٹائی کے دوران اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ لوگ "اشر” میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔