پشتون قبائلی روایت” اشر”صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہے

0

شاہ خالد شاہ جی

دنیا میں ہرمعاشرے کی اپنی اپنی اقدار ہوتی ہیں جو اس کو دوسرے معاشروں سے ممتازکرتی ہیں ۔ اوریہی اقدار دوسرے معاشروں میں ان کی پہچان بن جاتی ہیں۔ دنیا نے آج بہت ترقی کرتے ہوئے ایک گائوں کی شکل اختیارکرلی ہے تو دوسری طرف معاشرتی قدریں کمزور ہوگئی ہیں۔اب ان اقدار کی صرف ہمارے قبائلی معاشروں میں کچھ نہ کچھ جھلک ملتی ہے۔

ضلع باجوڑصوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع کا ایک ضلع ہے جوایک قبائلی معاشرہ ہے اس میں بھی کچھ ثقافتی روایات اب بھی باقی ہیں۔ان میں ایک روایت "اشر” نام کی بھی ہے۔ "اشر” کا مطلب ہے اکٹھے کام کرنا یعنی بہت سے لوگوں کا مشترکہ طورپر ایک کام کو سرانجام دینا "اشر” کہلاتا ہے۔

” آشر” میں شرکت کرنے والے بلامعاوضہ حصہ لیتے ہیں۔

ہمارےعلاقے میں جب کوئی بندہ اپنا کام اکیلے نہیں کرسکتا اوراس کو مدد کی ضرورت ہوتی ہےتواس کے ہاں گاؤں والے اوررشتہ دار جمع ہوکر مشترکہ طور پراسکا کام سرانجام دیتے ہیں۔ اس کام کے عوض وہ لوگ اس شخص سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے بلکہ کام کرنے پرخوش ہوتے ہیں کہ اس نے اپنے گاوں والے یا رشتہ دارکے ساتھ کام میں اسکا ہاتھ بٹایا اوراسکی مشکل حل کی۔

"آشر” کے چند اصول

دنیا میں جسطرح ہرکام کے کچھ اصول ہوتے ہیں ویسے ہی "اشر” کے بھی چنداصول ہیں اگرچہ یہ اصول کوئی طے شدہ یا حتمی نہیں ہیں مگرانکی پابندی”اشر” میں حصہ لینے والے لوگوں پرلازم ہے۔

پہلا اصول اس میں یہ ہے کہ "اشر”میں مدد کاطالب ایک دو یا تین دن پہلے لوگوں کوآگاہ کردیتا ہے کہ فلاں دن اس کا کام ہے اس کے لئے اپ "آشر” کے لئے آجائیں۔ تو وہ لوگ اسی دن مقررہ وقت پر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ اشرمیں اکثر زیادہ تعداد میں لوگ حصہ لیتے ہیں تاکہ مطلوبہ کام ایک دن میں ختم کیا جائے اگر ایک دن میں نہیں تو دوسرے دن بھی لوگ اس کے لئے آتے ہیں یا کچھ دنوں کے وقفے کے بعد بھی لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کام کے ختم ہونے تک وہ اس میں حصہ لیتے ہیں البتہ اس دوران لوگوں کی تعداد وقت کے ساتھ کم یا زیادہ بھی ہوجاتی ہے۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ اس روایت کا حصہ بننے والوں کیلئے کھانے پینے کا بندوبست کرنامیزبان کی ذمداری ہوتی ہے لیکن ” اشر” میں حصہ لینے والے لوگ بھی اپنے گھروں سے بخوشی اگر کھانا وغیرہ لاتے ہیں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ میزبان "اشر” میں دیسی گھی،دہی اور لسی کے ساتھ ساتھ روایتی کھانوں کا اہتمام کرتاہے اوریہی "اشر” میں شریک لوگوں کی پسندید خوراک اورمانگ بھی ہوتی ہے۔

تیسرا اصول "اشر”میں ہرعمر کے لوگ حصہ لیتے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی روایت ہے جس میں ہرکوئی اپنی مرضی سے حصہ لیتا ہے۔ "اشر” کی روایت اپنے اوردیگرقریبی دہیات میں بھی قائم ہے،دعوت کی صورت میں دوسرے گاؤں میں بھی لوگ "اشر” کے لئے جاتے ہیں۔”اشر” کی روایت پشتون معاشرے میں صدیوں سے رائج ہے۔

"اشر” کے شرکاء کے بعض اوقات دوگروپ بنائے جاتے ہیں جوآپس میں کام تقسیم کر کے ایک مقابلے کا اہتمام کرتے ہیں اورجو گروپ اپنا کام پہلے ختم کرتا ہے تواس کو داد دی جاتی ہے اوراس کے لئے کھانے میں خاص تواضع بھی کی جاتی ہے،لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

"آشر” کا اہتمام کن مواقعوں پر کیا جاتا ہے؟

"اشر” کا اہتمام کئی مواقعوں پرکیا جاتا ہے مثلاًمکانات بنانا، گاؤں کے لئے مشترکہ راستے بنانا، پانی کا بندوبست کرانا لیکن کچھ مواقعوں پراس کا خاص بندوبست کیا جاتا ہے جس میں فصلوں کی بویائی اوراس کی کٹائی شامل ہے۔ باجوڑ میں چاول کی فصل کی بویائی اورکٹائی کے دوران اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ لوگ "اشر” میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

اسی طرح جب گندم کی کٹائی کا وقت آتاہے توبھی اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ان دونوں موقعوں میں "اشر” میں شریک لوگ گروپوں میں تقسم ہوتے ہیں اور ہر گروپ اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام پہلے ختم کرے۔اسی دوران کھیت کے مالک کی طرف سے اس کے لئے علاقائی موسیقی کا بھی اہتمام کیاجاتا ہے اوروہ اس سے بھرپورطریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔

"اشر” میں شریک لوگوں کے مابین موسیقی کا مقابلہ بھی ہوتا ہے علاقائی زبان میں وہ ٹپے گاتے ہیں اوراسی طرح لوگوں میں کام کا جذبہ بڑھ جاتا ہے اوروہ مزید تیزی سے کام کرتے ہیں۔”اشر”ایک ایسی روایت ہے کہ اس کا پشتوزبان کی شاعری میں بھی گاہے بگاہے ذکر ملتا ہے اور شاعروں نے اس کو اپنی شاعری کا موضع بنایا ہے۔

پشتوکے مشہور شاعر و ادیب رحمت شاہ سائل کی شاعری کے چند مصرعے پیش نذرہیں۔

لو(کٹائی ) لہ بہ رازے جانان لولہ بہ رازے

پلی پٹی بہ راتہ ٹول خاستہ کوئے جانانہ

لولہ بہ رازے جانان لولہ بہ رازے

د ہر پٹی نہ چی ٹپی راخیجی بیدارا وی لو گری،،

د ٹپی واربہ راسہ وار پہ وار یگدے جانانہ

لولہ بہ رازے جانانہ لو لہ بہ رازے

ترجمہ: اپنے دوست یا جانان کو کہتے ہے کہ اپ گندم کی کٹائی کے لئے ضرور آؤگے۔ تم ہمارے کھیتوں کو اپنے آنے سے خوبصورت بناؤیا خوبصورتی بخشو۔

پھر کہتا ہے کہ ہر کھیت سے کٹائی کے وقت ٹپی جو پشتوموسیقی کا مشہور صنف اس کی گائیکی کی آوازیں آرہی ہیں جو لویعنی کٹائی کرنے والوں کو بیدار کرتاہے تو اپ بھی ہمارے ساتھ ٹپہ کا باری رکھیں گے۔

اسی طرح بہت سے گلوکاروں نے اسکو اپنی خوبصورت آوازوں میں ریکارڈ کیاہے اور "اشر” کے دوران اس کو سنتے ہیں اس کے ساتھ روایتی ڈھول اوررقص کا بھی اہتمام ہوتا ہے،بیل اوردنبھے بھی زبح کئے جاتے ہیں ۔ جس سے لوگ لو (کٹائی) کے دوران مزے لیتے ہیں ۔

"اشر میں حصہ لینے والوں کی روداد

باجوڑ کی تحصیل چارمنگ کے رہائشی ساٹھ سالہ گلاب جان نے کئی بار "اشر” میں حصہ لیا ہے ان کے مطابق ” اشر” کے دوران کبھی کبھی شریک لوگ ناخوشگوار واقعات کا بھی شکار ہوتے ہیں لیکن وہ اس سے کبھی ناراض نہیں ہوتے بلکہ اس بات کا افسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا ۔اپنےگھروالے ایسے لوگوں کی بہت خاطرمدارکرتے ہیں ۔

گلاب کے مطابق ان کو ” اشر” میں بہت سے ایسے وقعات پیش آئے ہیں جوناخوشگوار ہیں،لیکن میں صرف ایک کا یہاں پر ذکر کرونگا کہ بیس سال پہلے ہمارے علاقے میں ایک پانی کا تالاب بن رہاتھا جس میں لوگ بیلوں کے زریعے کام کرتے تھے اس میں ایک شخص کا بیل دوسرے کے بیل پرچڑھ دوڑا جس سے دوسرے شخص کا بیل کافی زخمی ہوا اوروہ بندہ خود بھی زخمی ہوا لیکن اس نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اوردوسرے دن وہ زخمی شخص ایک نئے جذبے کے ساتھ "اشر” میں شریک ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ” اشر” میں اگر چہ کام کرنے والے کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا لیکن پھر بھی لوگ بہت پیاراورمحبت سے کام کرتے ہیں،اس میں لوگوں کا آپس میں بھائی چارے کی فضا کوفروغ ملتا ہے۔ آج کل جس طرح دنیا میں کئی ثقافتی اقدار ختم ہوئی ہیں اور کچھ جگہوں پرکمزور ہوئی ہیں تو پشتون معا شرے میں بھی یہ اقدارکسی حد تک متاثر ہوئی ہیں مگرمکمل ختم نہیں ہوئی کیونکہ بہت سے لوگ اب بھی ان روایات کو زندہ رکھنے کے لئے پرجوش ہیں۔

پچاس سالہ بہادرخان بھی بچپن سے "اشر” میں شریک ہوتے آرہے ہیں۔ کیونکہ ان کے والد ان کو”اشر” میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ماموں کے ساتھ چاول کی پنیری کی بویائی کے لئے”اشر” میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ہرسال حصہ لیتے تھےجوان کے لئے بہترین تفریح کا باعث بھی تھا۔ کیونکہ ان میں چائے پراٹھوں اور دیسی کھانوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ہم عمرلوگوں کے ساتھ موج مستی بھی کرتے تھےاورموسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے تاہم چند سالوں سے وہ "آشر ” میں پہلے کی طرح باقاعدگی سے شرک نہیں ہوئے جس کی بنیادی وجہ محنت مزدوری کے لئے اپنے علاقے سے باہر ہوناہے۔ لیکن یہ ایک اچھی روایت ہے جس کو اسی طرح زندہ رکھنا چاہئے۔

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے محقق اور سماجی امور کے ماہرانورنگار کے بقول پشتون معاشرہ اسی اقدارکی وجہ سے مشہور ہے کہ اس میں کمزور کی مدد کی جاتی ہے ۔ہمارے علاقے میں جس جگہ پر یہ "اشر” کی روایت مظبوط ہے وہاں پر لوگوں کے درمیان محبت اوربھائی چارے کا ماحول ہے۔ اورجس جگہ پر یہ روایت کمزور ہوئی وہاں پر مفاد پرستی کا ماحول ہے ۔

نگار نے بتایا کہ موجودہ وقت میں لوگوں کے درمیان مفاد پرستی زیادہ ہوگئی ہے۔ اب کوئی کسی کا خیال نہیں رکھتا ہرایک اپنی اپنی فکرمیں ہے اور دوسرے کا کوئی نہیں سوچتا۔ اسی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ کا سماں ہے۔ اگر ہر علاقے اور معاشرے میں ” اشر” کی روایت کو زندہ اور مضبوط رکھا جائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائینگے۔ ورنہ ہرشعبے میں بہت سے کمزورلوگ مقابلے کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ جائینگے اورمعاشرے ترقی کے بجائے زوال کا شکار ہونگے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.