نرگس جنجوعہ
nargisjanjua95@gmail.com
ارے ساجدہ بات سن!ساس نے بڑے پیار سے بہو کو مخاطب کیا جس کے جواب میں ساجدہ نے بھی نہایت احترام سے کہا جی اماں! ساس نے ساجدہ کو پاس بٹھایا اور بولی ساجدہ ایان دو سال کا ہو گیا ہے اب آگے کا سوچو اکیلا ہے اس کا کوئی بازو بھائی کی شکل میں ہونا چاہئے ناں ورنہ اکیلا کہاں زندگی کی مشکلات سے لڑتا رہے گا۔دو بھائی ہونگے تو ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ ہونگےاپنے خونی رشتے کے علاوہ کوئی کسی کا نہیں بنتا۔ساجدہ بڑے غور سے اپنی ساس ماں کی باتیں سن رہی تھی جو اس کے دل کو بھی لگ رہی تھیں مگر ساتھ ہی اس کے دماغ میں ایان کی پیدائش کے وقت کہی گئی ڈاکٹر کی باتیں بھی گونج رہی تھیں کہ اب تمہاری صحت مزید بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں اسلئے احتیاط کرنا ورنہ تمہاری زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔اسی سوچ میں ساجدہ نے ساس کو سمجھایا کہ اماں آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مگر آپ کو یاد ہو گا ڈاکٹر نے کیا کہا تھا؟ساس نے بہو کی بات سنی تو تھوڑا لہجہ بدل گیا کہنے لگی چھوڑو ڈاکٹروں کو۔۔وہ تو ایسے ہی کہتے رہتے ہیں ہمیں بھی تو دیکھو سات بچےپیدا کئے اب بھی صحت مند ہیں اس وقت تو کوئی ڈاکٹر بھی نہیں ہوتا تھا نہ کوئی ہسپتال جاتا تھا۔گھر میں ہی دائی بلائی جاتی تھی ۔میرے سارے بچے گھر میں ہی پیدا ہوئے۔بس خوراک کھائی اور دو تین دن میں گھر بھی سنبھالتے تھے اور بچے بھی۔اب ناجانے نئی نسل کو کیا ہو گیاہے بچے پیدا کرنا تو عورت کا کام ہے اس سے کچھ نہیں ہوتا بس ایسے ہی ڈاکٹروں نے فیسیں لینے کے چکر میں لڑکیوں کی مت ماری ہوئی ہے۔تم ٹھیک ٹھاک ہو پہلے بھی توتین بچے پیدا کیے ہیں اب کیا ہو گیا؟ ساجدہ نے ساس کو پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ اماں اللہ پاک نے مجھے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی نعمت سے نوازا ہے اب مجھ میں مزید بچے پیدا کرنے کی ہمت نہیں اللہ انہیں ہی زندگی دے اور معاشرے کانیک اور مفید شہری بنائے۔اماں تو جیسے ایک دم سے بھڑک اٹھی بس بڑا تیر مار لیا تم نے تین بچے پیدا کرکے۔ارے بیٹیاں تو اپنے گھروں کو چلی جائیں گی۔پیچھے ایان اکیلا رہ جائے گا اس کا بھی سہارا ہونا چاہئے کوئی۔۔آج آئے شایان میں خود اس سے بات کرتی ہوں وہ ہی تمہیں سمجھائے گا۔اپنی صحت کی پڑی ہے تمہیں بچے کے اکیلے پن کا کوئی احساس ہی نہیں۔۔
ساجدہ ساس کا موڈ دیکھ کر خاموش ہو گئی اور گھر کے کام کرنے لگی۔شام کو اس کا شوہر آیا تو ماں نے پھر سے وہی بحث شروع کر دی بیٹا بھی ماں کی ہاں میں ہاں ملانے لگااور بیوی کو بھی سختی سے کہا کہ ماں سے بحث نہ کیا کرو وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں اور ہمارے بھلے کی ہی بات ہے تو بیٹے ہونگے تو میرا سہارا بنیں گے۔تم اپنی صحت کا بہانہ بنانا چھوڑ دو اچھا خاصا تین وقت کھاتی پیتی ہو تمہیں کیسی کمزوری۔۔آخر شوہر اور ساس کی باتوں سے تنگ آ کر ساجدہ نے بھی فیصلہ کر لیا کہ وہ بچہ پیدا کرے گی۔حمل کے شروع کے مہینوں میں ہی اس کی طبیعت سخت خراب رہنے لگی ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو اس نے کہا جب پہلے ہی کہا تھا کہ اب مزید بچے پیدا نہیں کرنے تو پھر احتیاط کرنی چاہئے تھی۔اب اس کی خوراک ڈبل کرو ۔اسے آرام کی ضرورت ہے۔مگر آرام کہاں کرتی بے چاری گھر میں اور کوئی کام کرنے والا بھی تو نہیں تھا۔گھر اور بچے سنبھالتی ساتھ میں ساس اور شوہر کی فرمائشیں بھی پوری کرتی۔ڈبل خوراک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ مشکل سے پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے گزارا ہو رہا تھا۔جو سب کھاتے وہی ساجدہ بھی کھا لیتی۔کمزوری دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ڈاکٹر نے بتایا کہ بیٹا پیدا ہو گا تو شوہر اور ساس کو ساجدہ کی خراب صحت کہاں نظر آتی۔آخر ساجدہ کی طبیعت اچانک بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹر نے فوری آپریشن کرنے کا کہا۔ساتھ ہی کہا کہ دونوں (ماں اور بچے) میں سے کسی ایک کو بچایا جا سکتا ہے۔ساس نے بیٹے کو کہا بچے کو بچا نے کا کہہ دو بیویاں تو اور مل جائیں گی اپنی اولاد ہے اسے بچا لو۔پھر ایسا ہی ہوا بچے کو بچا لیا گیا اور ساجدہ اپنے چار معصوم بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر بھری جوانی میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔
یہاں سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ساجدہ کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں تھی؟کیا وہ صرف ایک بچے پیدا کرنے کی مشین تھی جو دوسری آجائے گی؟کیا وہ انسان نہیں تھی؟کیا اس کے کوئی حقوق نہیں تھے؟کیا اس کے جانے کے بعد اس کے بچوں کی پرورش صحیح طرح ہو پائے گی؟کیا دادی یا سوتیلی ماں ان بچوں کا احساس محرومی ختم کر پائیں گی؟ان بچوں کو تو ماں کی ضرورت تھی ان سے ماں کو کیوں چھینا گیا؟یہ سچ ہے کہ زندگی اور موت اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے مگر اللہ پاک نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے برابر ہے پھر کیوں ساجدہ کی جان لی گئی؟جبکہ وہ بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ایسے بہت سے سوال ذہن میں اٹھتے ہیں جن کا جواب ہمارے معاشرے کو دینا ہو گا ۔دوسری جانب ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جب ماں کی صحت کی بات کی جائے تو لوگوں کے ذہن میں خاندانی منصوبہ بندی کی بات آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی بیرونی سازش ہے تا کہ یہاں بچے کم ہوں جبکہ یہ نہیں سوچا جاتا کہ جو عورت بچے پیدا کرتی ہے وہ بھی تو ایک انسان ہے اسے بھی اچھی اور صحت مند زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔جب تک ماں صحتمند اور خوشحال نہیں ہو گی وہ صحتمند اور با شعور نسل کو پروان نہیں چڑھا سکتی۔ اس کا حق بنتا ہے کہ وہ جو بچے پیدا کر چکی ہے ان کی تعلیم و تربیت اور بہترین پرورش کیلئے اپنی خوراک کا خیال کرے اورجن کمزوریوں کاوہ شکارہوئی ہے پہلے اس کاازالہ کیاجائے۔
بھوک، افلاس اور قحط آج تیسری دنیا کا ایک بدترین المیہ ہے۔ یہاں پر کئی ایسے ممالک ہیں جہاں پر کئی برسوں سے خشک سالی نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ قحط کے اس عفریت نے ایشیا کے کچھ حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے پاکستان تو مسائلستان بن چکا ہے یہاں متوسط طبقے کی آمدنی اتنی کم ہے کہ گھریلو اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے تو حاملہ عورت جسے اضافی غذائی خوراک کی اشد ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے پوری کرے۔
حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی 2.55 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھتے ہوئے چوبیس کروڑ سے بڑھ چکی ہے۔پاکستان میں تولیدی عمر کی 42 فیصد مائیں خون کی کمی کا شکار ہیں۔یو این ایف پی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر 50 منٹ میں ایک خاتون حمل کی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کر جاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو بروقت صحت کی سہولیات ملنے کے امکانات کم ہیں، اس کے باوجود افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس ضمن میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ اگر ترقی کی یہی رفتار جاری رہی تو پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح صفر ہونے میں 122 سال اور خاندانی منصوبہ بندی کی ضروریات کو پورا ہونے میں مزید 93 سال لگنے کا امکان ہے۔دوسری جانب پاپولیشن کونسل نے ایک حالیہ رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ اگر آبادی میں ہوشربا اضافہ روکنے کیلئے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو 2050ء تک صرف پنجاب کی آبادی 25کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ آبادی میں ہوشربا اضافہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ ملکی آبادی میں سالانہ ڈھائی فیصد کے حساب سے اضافہ جاری ہے جو کہ عالمی سطح پر آبادی میں سالانہ اضافے کی اوسط شرح سے دو گنا ہے۔
یہ امر بھی باعث تشوش ہے کہ ملکی آبادی میں تیزی سے اضافہ ملک کی معاشی ترقی میں رکاوٹ ہے کیونکہ حکومت بڑھتی ہوئی آبادی کوخوراک، رہائش، اسکولوں ، صحت اور ملازمتوں کے مواقع فراہم نہیں کر سکتی۔آبادی میں تیزی سے اور ناقابل برداشت اضافہ معاشروں کو مزید غیر مستحکم بناتا ہے اورمعاشرہ بد امنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں آبادی اور وسائل کے درمیان توازن کا قیام ایک اہم چیلنج ہے ۔عوام کے اندر شعور و آگاہی پھیلانے میں اگر علمائے کرام اور دیگر مذہبی شخصیات اپنا کردار ادا کریں تو آبادی کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ماں اور بچے کی صحت و زندگی کو بچانے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔